.

.

.

.

.

.

.

.

Welcome To Taxila

In This Blog I Am Going To Tell You About Archaeology And Gandhara Art In Taxila.

Featured Posts Coolbthemes

The Wall Of Sirkap

The wall of the city is made of large stone bricks with smaller stone bricks in-between the larger ones. It is remarkably smooth on the outer side. Circular bastions are present in the wall at small distances for defence. These bastions contain holes for archers who could shoot arrows at the enemy outside. شہر کی فصیل بڑے بڑے پتھروں سے بنائی گئی ہے جن کے بیچ میں چھوٹے پتھر استعمال ہوئے ہیں۔ باہر والی طرف سے یہ فصیل حیرت انگیز حد تک ہموار ہے۔ شائد اس لئے کہ دشمن اس پر آسانی سے نہ چڑھ سکیں۔ فصیل میں کچھ فاصلے پر برج نما جگہیں بنائی گئی ہیں جن میں تیر اندازوں کے لئے کھڑکیاں نبی ہوئی ہیں۔

The Ruins Of Sirsukh

The ancient city was excavated only on a very small scale in 1915-16 CE, and further excavation work has been impeded by a high water table which threatens the integrity of ancient structures. It was included in the World Heritage List of the UNO in 1980 as part of Taxila. اس شھر کی کھدائی ایک محدود پیمانے پر ۱۹۱۵۔۱۹۱۶ میں ہوئی۔ مزید کام پانی کی بلند سطح کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔ ۱۹۸۰ میں ان کھنڈرات کو یونیسکو کی عالمی ورثہ کی لسٹ میں ٹیکسلا کے تحت شامل کیا گ

The Sirsukh City

The city of Sirsukh was founded by the Kushan king Kanishka after 80 CE, and is the last of the great ancient cities of Taxila. The invaders decided to abandon the older city of Sirkap and build a newer city on the other side of the Lundi-nala. The wall of the city is about 5 kilometers long and about 5.4 meters thick. The city wall covers an area of around 2300 x 1000 meters seen along the east-west direction, and is laid out in a typical Central Asian style, complete with suburbs. Sirsukh was left uninhabited when the White Huns invaded the Punjab at the end of the fifth century CE. To the north-east of the city flows the Harro river whereas to the south the Lundi-ravine is present. سرسکھ شھر کشن بادشاہ کنشکا نے ۸۰ عیسوی میں تعمیر کیا۔ یہ ٹیکسلا کے شہروں میں سے سب سے آخری شہر ہے۔ کشن حکمرانوں نے فتح کے بعد سرکپ کے پرانے شھر کو ترک کر کے لنڈی نالہ کی دوسری جانب نیا شہر آباد کرنے کا فیصلہ کیا تھا
۔ شھر کی فصیل قریبا ۵ کیلومیٹر لمبی ہے اور قریبا ۴ء۵ میٹر چوڑی ہے۔ یہ فصیل ۲۳۰۰x۱۰۰۰ میٹر رقبہ کے گرد بنائی گئی ہے اور وسطی ایشیاء کے طرز تعمیر کے مطابق ہے۔ جب پانچویں صدی عیسوی کے آخر میں سفید ہن قوم نے پنجاب پر قبضہ کیا تو سرسکھ کا شہر متروک ہو گیا۔ سرسکھ کے شمال مشرق میں ہارو دریا بہتا ہے جبکہ جنوب میں لنڈی نالہ موجود ہے۔

Sirsukh

Sirsukh is the name of an archaeological site near the city of Taxila, Punjab, Pakistan. سرسکھ ٹیکسلا، پاکستان کے کھنڈرات کا حصہ ہے۔

Visit by Apollonius of Tyana On Sirkap

The Greek philosopher Apollonius of Tyana is related to have visited ancient Pakistan, and specifically the city of Taxila in the 1st century AD. He describes constructions of the Greek type, probably referring to Sirkap: "Taxila, they tell us, is about as big as Nineveh, and was fortified fairly well after the manner of Greek cities". "I have already described the way in which the city is walled, but they say that it was divided up into narrow streets in the same irregular manner as in Athens, and that the houses were built in such a way that if you look at them from outside they had only one story, while if you went into one of them, you at once found subterranean chambers extending as far below the level of the earth as did the chambers above. معروف یونانی فلاسفر اپولونوس]] از تیانا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے صدی عیسوی میں سرکپ بھی آیا تھا۔ اس نے یونانی طرز تعمیر کے متعلق، غالبا سرکپ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، لکھا ہے: ٹیکسلا کے متعلق ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ نینوہ جتنا بڑا ہے اور اس کی شھر پناہ یونانی طرز کے مطابق تعمیر کی گئی ہے۔ پھر وہ لکھتا ہے: میں نے پہلے بتایا ہے کہ شھر کی فصیل کس طرح تعمیر کی گئی ہے۔ لیکن کھا جاتا ہے کہ اس کو ایتھنز کی طرح بے ترتیب طریق پر تنگ گلیوں میں بھی تقسیم کیا گیا تھا۔ اور گھروں کو اس طرح بنایا گیا تھا کہ اگر ان کو باہر سے دیکھا جائے تو وہ یک منزلہ نظر آتے تھے لیکن اگر آپ ان میں داخل ہوں تو فی الفور اتنے ہی زیر
زمین کمرے نظر آتے تھے جتنے زمین کے اوپ

Double-Headed Eagle Stupa Of Sirkap

A special Stupa at Sirkap is the so-called 'Double-Headed Eagle Stupa'. The pilasters here are of a Greek design, "Corinthian columns". In the middle arch, a Greek temple is shown; in the outer, a shrine of a Hindu design can be seen. On top of these sanctuaries, a double-headed eagle is seated from which the name of the Stupa has been derived. This motive is rather odd, to say the least, as it is originally Babylonian. It seems to have spread to Scythia, and introduced in the Punjab by the Saca rulers. سرکپ کا ایک خاص ستوپہ دوہرے سر والے عقاب کا ستوپہ ہے۔ اس میں نظر آنے والے ستون یانانی طرز کے ہیں۔ درمانی محراب میں ایک یونانی مندر دکھایا گیا ہے جبکہ باہر والی محراب میں ہندو طرز کا ایک مندر عیاں ہے۔ ان کے اوپر دوہرے سر والا عقاب بنایا گیا ہے۔ یہ نشان اس لحاظ سے بھی عجیب ہے کہ اس طرح کے عقاب کا خیال بابل کی قدیم تہذیب میں ملتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں سے یہ خیال سکیتھیا اور وہاں سے پنجاب آیا۔

Apsidal Temple Of sirkap

The building that is known as the Apsidal Temple is the largest sanctuary of Sirkap, measuring about 70 by 40 meters (by contrast: the Parthenon in Athens is 70 by 31 meters). The Apsidal Temple consists of a square nave with several rooms, used by the Buddhist monks, and a circular room, which gives the building its apsidal shape. After the earthquake that destroyed the city in ca. 30 AD, the Buddhist shrine was built in a spacious courtyard. The round part was probably in use for a small stupa, but no traces of it remain. Some carvings were probably done by an artist from Greece. گول مندر سرکپ کی سب سے بڑی مذہبی عمارت ہے جو کہ ۷۰x۴۰ میٹر رقبہ پر واقع ہے۔ اس مندر میں ایک مستطیل حصہ ہے جس میں کئی کمرے ہیں جو کہ بدھ راہبوں کے زیر استعمال تھے۔ اس کے علاوہ ایک گول کمرہ ہے جو کہ مندر کی وجہ تسمیہ ہے۔ ۳۰ ق م میں ایک زلزلہ میں تباہ ہونے کے بعد جب شھر کو دوبارہ تعمیر کیا گیا تو مندر میں توسیع کی گئی۔

Round Stupa Of sirkap

One round Stupa is present at Sirkap. It is one of the oldest Stupas in the Indian-Subcontinent. It is assumed that this Stupa was uprooted and thrown to its present location by a strong earthquake in the 1st century AD. When the new city was built later, the Stupa was kept by building a protecting wall around it. سرکپ میں موجود گول ستوپہ پاکستان کے قدیم ترین ستوپوں میں سے ایک ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ستوپہ ایک زبردست زلزلہ کے نتیجہ میں موجودہ جگہ پر آن گرا تھا۔ جب پہلی صدی عیسوی میں شھر دوبارہ تعمیر کیا گیا تو اس کے گرد دیوار بنا کر اسے محفوظ کر دیا گیا

Religious buildings Of Sirkap

Buddhist stupas with strong Hellenistic decorative elements can be found throughout the Sirkap site (Stupa of the two eagles as well as a Hindu temple, indicating a close interaction of religious cultures. A Greek religious temple of the Ionic order is also visible at the nearby site of Jandial (650 meters from Sirkap), but there is a possibility that it may have been dedicated to a Zoroastrian cult. The site of Sirkap bears witness to the city-building activity of the Indo-Greeks during their occupation of the Indian territory for close to two centuries, as well as their integration of other faiths, especially Buddhism. بدھ ستوپے شھر میں جگہ جگہ پر موجود ہیں اسی طرح ایک ہندو مندر بھی پایا گیا ہے جس سے یہاں دونوں مذاہب کے درمیان روابط کا علم ہوتا ہے۔ سرکپ کے نزدیک ہی جنڈیال کے مقام پر ایک یونانی یا زرتشتی مندر بھی موجود ہے

سرکپ کی تاریخ

غالب خیال کے مطابق سرکپ کا شھر یونانی و بکتری بادشاہ دیمیٹریوس نے ہندوستان پر حملہ کے بعد ۱۸۰ قبل مسیح میں بسایا تھا۔ لیکن بعض لوگوں کے خیال میں یہ شھر مینندر اول نے تعمیر کیا تھا۔
اس شھر کو یونانی طرز تعمیر کے مطابق بنایا گیا تھا۔ شھر کے بیچ میں ایک میدان تھا جس کے گرد ۱۵ سڑکیں بنی ہوئی تھیں۔ شھر قریبا ۱۲۰۰X ۴۰۰ میٹر رقبے پر پھیلا ہوا تھا جس کے گرد ۵ سے ۷ میٹر چوڑی اور ۸ء۴ کیلومیٹر لمبی فصیل بنائی گئی تھی۔ یونانی دیو مالائی کہانیوں میں ملنے والی سمندری مخلوق ایک بحری بلا پر سوار ہے۔ سرکپ سے برآمد شدہ پتھر کی ایک تختی پر موجود تصویر سرکپ میں یونانی تہذیب سے متاثر کئی چیزیں دریافت ہوئی ہیں۔ ان میں خاص طور ہر بادشاہوں کے سکے شامل ہیں جن میں یونانی دیومالائی کہانیوں کے تصورات ملتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستانی اثرات بھی پائے گئے ہیں چنانچہ ہندوستانی پازیب یونانی دیوی آرٹیمیس کے پاوں میں دیکھائے گئے ہیں۔ یونانیوں کے بعد سکیتھیوں اور پارتھیوں کے حملوں اور ۳۰ ق م میں آنے والے ایک زلزلہ کے بعد اس شھر کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ گوندافارس نے، جو کہ پہلا پارتھی بادشاہ تھا، نے بھی شھر کے بعض حصے تعمیر کئے تھے جن میں دو سروں والے عقاب کا ستوپہ اور سورج دیوتا کا مندر شامل ہیں۔ آخر میں کشن بادشاہوں نے اس شھر پر قبضہ کر لیا اور اسے چھوڑ کر کوئی ڈیڑھ کیلومیٹر دور سرسکھ کے مقام پر نیا شھر تعمیر کیا۔

Greek city Sirkap

The site of Sirkap was built according to the "Hippodamian" grid-plan characteristic of Greek cities. It is organized around one main avenue and fifteen perpendicular streets, covering a surface of around 1200x400 meters, with a surrounding wall 5–7 meters wide and 4.8 kilometers long. The ruins are Greek in character, similar to those of Olynthus in Macedonia.
Numerous Hellenistic artifacts have been found, in particular coins of Greco-Bactrian kings and stone palettes representing Greek mythological scenes. Some of them are purely Hellenistic, others indicate an evolution of the Greco-Bactrian styles found at Ai-Khanoum towards more indianized styles. For example, accessories such as Indian ankle bracelets can be found on some representations of Greek mythological figures such as Artemis. Following its construction by the Greeks, the city was further rebuilt during the incursions of the Indo-Scythians, and later by the Indo-Parthians after an earthquake in 30 AD. Gondophares, the first king of the Indo-Parthian Kingdom, built parts of the city including the double headed eagle stupa and the temple of the sun god. The city was overtaken by the Kushan kings who abandoned it and built a new city at Sirsukh, about 1.5 km to the north-east.

Sirkap

Sirkap is the name of an archaeological site on the bank opposite to the city of Taxila, Punjab, Pakistan. The city of Sirkap was built by the Greco-Bactrian king Demetrius after he invaded ancient India around 180 BC. Demetrius founded in the northern and northwestern Indian subcontinent (modern day Pakistan) an Indo-Greek kingdom that was to last until around 10 BC. Sirkap is also said to have been rebuilt by king Menander I. The excavation of the old city was carried out under the supervision of Sir John Marshall by Hergrew from 1912-1930. In 1944 and 1945 further parts were excavated by Mortimer Wheeler and his colleagues. سرکپ ٹیکسلا، پاکستان کے وسیع کھنڈرات کا ایک حصہ ہے۔ سرکپ کے کھنڈرات کی کھدائی اول سر جان مارشل کے زیر ہدایت ہرگریو نے ۱۹۱۲ تا ۱۹۳۰ میں کی۔ پھر ۱۹۴۴ تا ۱۹۴۵ میں مورٹمر ویہلر نے بعض مزید حصوں دریافت کئے۔

The monument Of Mohra Muradu

The monument is found in one of the rooms of the monastery. It was probably dedicated to the memory of one of the teachers who used to live in the room where it is located. The umbrellas were once colored. The monument is about 4 meters high. ایک خاص یادگار درسگاہ کے ایک کمرہ میں موجود ہے۔ غالبا یہ ایک استاد کی یاد میں تعمیر کی گَی تھی جو کہ اس کمرہ میں رہتا تھا۔ یہ یادگار قریبا ۴ میٹر بلند ہے اور اس کے بعض حصے رنگین تھے۔

The monastery of Mohra Muradu

The monastery consists of 27 rooms for the students and the teachers built around a courtyard with a pool. The large, square shaped pool contained water for ritual washings and was about half a metre deep. Stairs to the pool were present on all sides. The monastery also contained a kitchen and a well for water that still functions today. The rain water was collected into the pool from the roof of the monastery over wooden extensions. Statues of Buddha are found abundantly in the courtyard and the rooms for the students. An assembly hall is also present in one corner of the monastery. The monastery was a double story building. Stairs to the upper story went through one of the rooms. There was additional connection through wooden constructions from the courtyard. The strength of the walls has, however, led to the idea that there might have existed even a third story. قدیمی درسگاہ میں طالب علموں کے لئے ۲۷ کمرے موجود ہیں جو کہ ایک مرکزی تلاب کے ارد گرد واقع ہیں۔ مستطیل شکل کے اس تلاب کی گہرائی نصف میٹر تھی اور اس کا پانی مذہبی مقاصد کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ بارش کا پانی چھت سے لکڑی کے پرنالوں کے راستہ تلاب میں گرتا تھا۔ تلاب میں اترنے کے لئے چاروں طرف زینے موجود ہیں۔ درسگاہ میں ایک باورچی خانہ بھی موجود ہے اور ایک کنواں بھی جو کہ آج بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ بدھ کے مجسمے درسگاہ کے صحن اور طالب علموں کے کمروں میں بکثرت موجود ہیں۔ درسگاہ میں ایک طرف اجتماع کا بڑا کمرہ بھی بنا ہوا ہے۔ یہ درسگاہ دو منزلہ تھی۔ دوسری منزل تک جانے کے لئے ایک کمرے میں سے زینے جاتے تھے۔ دیواروں کی چوڑائی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شائد تیسری منزل بھی بنائی گئی تھی۔

Excavation Of Mohra Muradu

The ruins of Mohra Muradu were excavated under the supervision of Sir John Marshall by Abdul Qadir in 1914-1915. They consist of a buddhistic monastery and two stupas. The main stupa is built on a foundation more than 4.75 meters high. The smaller, votive, stupa lies behind the bigger one. موہرا مرادو کے کھنڈرات کی کھدائی پہلی مرتبہ سر جان مارشل کی زیر نگرانی عبد القادر نے ۱۹۱۴ تا ۱۹۱۵ میں کی۔ بڑا ستوپہ ۷۵ء۴ میٹر بلند بنیاد پر تعمیر کیا گیا ہے۔ چھوٹا ستوپہ جو کہ نذر کا ستوپہ ہے بڑے ستوپہ کے ساتھ ہی واقع ہے۔